7/2/24

Qasas ul Anbiya EP 01 | Hazrat Adam A.S |

 ناظرین گرامی اللہ کے اولین پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام ہیں جنہیں ابوابشر یعنی انسان کا باپ اور صفی اللہ یعنی خدا کا برگزیدہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے زمانے کا ٹھیک طور سے تعین نہیں کیا جا سکتا کچھ علماء کے نزدیک آپ کا وقت چھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آج ہم حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جس سے ہر مسلمان بچے ،بوڑھے اور مرد و عورت کا آگاہ ہونا ضروری ہے دوستوں سلسلہ قصص الانبیاء کی یہ پہلی قسط۔ ناظرین قران مجید میں  بیان ہونے والے بہترین قصوں میں سے ایک بنی نو انسان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا ہے آپ اللہ تعالی کے پہلے نبی ہیں اور آپ کا قصہ قرآنِ مجید کی مختلف سورتوں میں متعدد دفعہ  بیان ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ہے میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں یعنی اللہ پاک نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی خبر دی جس طرح کسی بھی عظیم کام کو وجود میں لانے سے پہلے دی جاتی ہے۔ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اللہ پاک کی حکمت کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند تھے انہوں نے عرض کی کیا تو ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے  اور کچھ تو خون کرتا پھرے؟ اس سوال کا مقصد نہ تو اللہ پاک پر اعتراض کرنا تھا اور نہ انسان سے حسد ہی تھا محض اس میں اللہ پاک کی حکمت معلوم کرنا تھا اور اللہ پاک نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے. روایت میں آیا ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ زمین سے ہر قسم کی سرخ و سفید اور سیاہ مٹی کی ایک مٹھی لائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اللہ پاک نے اس مٹھی پر باران رحمت برسایا اور اپنی قدرت کاملہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا اس مٹی کے خمیر سے بنایا اور 40 برس تک وہ غالب وہاں بے جان پڑا رہا ۔فرشتے پاس سے گزرتے تو اس جسم کو دیکھ کر ڈر جاتے۔ ابلیس سب سے زیادہ خوفزدہ تھا وہ پاس سے گزرتے ہوئے اسے ضرب لگاتا تو ایسی آواز آتی جس طرح مٹی کے بنے ہوئے برتن سے کوئی چیز ٹکرائے تو آواز آتی ہے اس لیے جب وہ ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے مخاطب ہوتا تو کہتا تجھے کسی خاص مقصد سے  پیدا کیا گیا ہے ۔ایک روایت کے مطابق پھر وہ اس خاکی کے جسم میں منہ کی طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل گیا اور فرشتوں سے کہا اس سے مت ڈرو تمہارا رب سمد ہے لیکن یہ تو کھوکھلا ہے اگر مجھے اس پر قابو دیا گیا تو اسے ضرور تباہ کر دوں گا۔ جب عنایت الہی نے چاہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا ستارہ اقبال روشن اور بنی آدم کا مرتبہ تمام مخلوق پر ظاہر ہو تو روح پاک کو حکم صادر ہوا کہ آدم علیہ السلام کے بدن میں داخل ہو روحِ قالب حضرت آدم علیہ السلام کے سر مبارک کی طرف سے داخل ہوئی جس جگہ روح پہنچتی بندہِ خاکی گوشت اور پوست سے بدلتا جاتا تھا ۔جب روح آنکھوں میں داخل ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کے پھل نظر آئے جب روح  پیٹ تک پہنچی تو آپ کو کھانے کی خواہش  پیدا ہوئی اور حضرت آدم علیہ السلام نے جلدی سے اٹھنے کا ارادہ کیا اور وہیں زمین پر گر پڑے کیونکہ روح ابھی ٹانگوں میں داخل نہ ہوئی تھی اس لیے اللہ پاک نے قران پاک میں فرمایا ہے انسان جلد باز ہے الانبیاء 21 تا 37 اور اسی حالت میں حضرت آدم علیہ السلام نے چھینکا اور الہام الہی سے کہا الحمدللہ اس کریم اور رحیم رب نے اسی رحمت سے فرمایا یرحمک اللہ۔ سب سے پہلے اللہ پاک کی رحمت کا جلوہ حضرت آدم علیہ السلام کو ہوا اور پھر ان کے طفیل بنی آدم کو نصیب ہوا اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرما کر تختِ عزت اور عظمت پر بٹھایا قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس عزت افزائی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی  پیدائش پر فرشتے ابتدا میں کہتے تھے کہ جس کو اللہ پاک خاک سے  پیدا کر کے خلافت کی مسند پر بٹھائے گا تو وہ خدا کے نزدیک ہم سے زیادہ عزیز نہ ہوگا کہ ہم دن رات بارگاہ  اللہ ملغیوب میں رہتے ہیں ہمارا علم اس سے زیادہ ہوگا اللہ پاک نے موجب آیت اور آدم کو تمام نام سکھا دیے یعنی تمام چیزوں کے نام حضرت آدم علیہ السلام کو الہام کر کے حکم دیا کہ فرشتوں سے ان چیزوں کے نام پوچھو جب حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا خبر دو میرے تئیں ان چیزوں کے نام سے اگر تم سچے ہو تب فرشتے جواب سے عاجز ہوئے اور اپنے قصور سے معترف ہو کر بولے پاک ہے تو اور نہیں علم ہمارے تئیں مگر جو تو نے سکھایا ہم کو اور تو ہی پورے علم و حکمت والا ہے۔ تب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو کمالِ ظاہر و باطن سے آراستہ کیا اور ان کی تعظیم و تکریم کے لیے ملائک کو حکم کیا کہ سجدہ کرو آدم کو سب فرشتوں نے حکم الہی کے سبب بلا اجر و تکرار حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور بولا میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے  پیدا کیا گیا ہے اس نافرمانی سے شیطان ملعون ابدی ہو کر فرشتوں سے نکالا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں رہنے لگے اللہ پاک نے سورہ الحجرات میں حضرت آدم علیہ السلام اور جنوں کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ اور ابلیس کے سجدے سے انکار کے بعد اس پر لعنت کی ہے اس نے لعنتی قرار پانے پر بنی آدم کی دشمنی کا اعلان کر دیا اور اللہ پاک سے تا قیامت اس کی مہلت طلب کی یہ واقعہ سورہ الحجرات میں اس طرح  بیان ہوا ہے ایک دن جب آدم علیہ السلام پر خواب نے غلبہ کیا تو وقتِ خواب اللہ پاک نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم علیہ السلام کے پہلو سے بی بی حواعلیہ  السلام کو  پیدا کیا آدم علیہ السلام  بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ایک پاکیزہ عورت ان کے پاس بیٹھی ہے وہ انہیں دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور پوچھا تو کون ہے حضرت حوا علیہ السلام نے کہا کہ میں تیرے بدن کا جز ہوں اللہ پاک نے مجھے تیری پسلی سے  پیدا کیا اللہ پاک نے انہیں بے پناہ حسن سے نوازا تھا حضرت آدم علیہ السلام سجدہ شکر بجا لائے۔ سورہ اعراف میں آیا ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک شخص سے  پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے راحت حاصل کرے۔ اور پھر ان دونوں کو حکم ہوا کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو سب میوے کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا اللہ پاک نے اس درخت کے نام کا تعین نہیں فرمایا لہذا اس میں حتمی رائے سے اجتناب بہتر ہے علماء اور مفسرین کی آرا بھی اس بارے میں مختلف ہے حضرت آدم و حوا نے جو پھل کھایا تھا وہ کون سا پھل تھا اس پر تین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک گروہ تو یہ کہتا ہے کہ چونکہ قران و حدیث میں واضح طور پر اس پھل کے بارے میں نہیں بتایا گیا تو ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے۔ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ پھل گندم کا تھا جیسا کہ بائبل سے علم ہوتا ہے ایک اور اقلیتی گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ پھل جنسی آزادی کا تھا یہی وجہ ہے کہ جب دونوں نے یہ پھل چکھا تو برہنگی کا احساس ہوا۔ بہرکیف دیگر باتیں ان تفصیلات میں جانے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ناظرین آدم و حوا اپنی اس خطا پر سخت نادم ہوئے ان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قران کریم میں کچھ اس طرح  بیان ہوا ہے سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے اور کہا ہم نے کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جو چاہو بفراغت کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے شمار ہو گئے پھر شیطان نے ان دونوں سے اس درخت کی وجہ سے لغزش کرا دی پس ان کو جنت سے خارج کروا دیا اس راحت و سکون کی حالت سے کہ جس میں وہ رہ رہے تھے ہم نے حکم دیا کہ نیچے اترو تم میں سے بعض بعضوں کے دشمن ہوں گے تمہیں ایک خاص معیاد تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا سورہ اعراف میں یہ واقعہ اس طرح  بیان کیا گیا ہے پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے بدن کا پردہ جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا دونوں کے روبرو ظاہر کر دے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھائی کے جانیے میں آپ دونوں کا خیر خواہ ہوں پس ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جو درخت کو چکھا تو دونوں کے بدن ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہو گئے اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اسی سورہ اعراف میں تھوڑا آگے چل کر انسانوں کو تلقین کرتے ہوئے مزید ارشاد باری تعالی ہوتا ہے اے آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین یعنی آدم و حوا کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے سورہ طہ میں اللہ تعالی مزید ارشاد فرماتا ہے اور اس سے قبل ہم آدم کو ایک تاکیدی حکم دے چکے تھے سو ان سے غفلت اور بے احتیاطی ہو گئی اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی ۔اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس نے انکار کیا پھر ہم نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ اے آدم یاد رکھو یہ بلا شبہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے سو تم دونوں کو کہیں جنت سے نہ نکلوا دے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ یہاں جنت میں تو تمہارے لیے یہ آرام ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے رہو گے نہ کبھی ننگے ہو گے اور نہ یہاں پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے پھر ان کو شیطان نے بہکایا کہنے لگا کہ اے آدم! کیا میں تم کو ہمیشگی کی خاصیت کا درخت بتلاؤں اور ایسا کہ جس کی بادشاہی میں کبھی زوف نہ آئے تو اس کے بہکانے سے دونوں نے اس درخت سے کھا لیا تو دونوں کے سطر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنا بدن ڈھانپنے کو دونوں اپنے اوپر جنت کے درختوں کے پتے چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہو گیا سو غلطی میں پڑ گئے ناظرین گرامی اس عبرت اثر واقعے سے وابستہ مزید احوال ہم ائندہ پیش کریں گے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں