شیطان کے سات مینار وہ مقام جو اس زمین پر شیطان اور اس کے لشکر کا ہیڈ کوارٹر ہیں ان میناروں کے ذریعہ پوری دنیا میں بدی کو کیسے عام کیا جاتا ہے عراق کی قدیم قومیں اس مینار کو مقدس کیوں سمجھتی ہیں اور ہٹلر کی نازی فوج ان میناروں کی تلاش کیوں کر رہے تھے دنیا کے مختلف
ابراہیمی اور غیر ابراہیمی مذاہب میں شیطان کا تفصیلی ذکر اور حالات مختلف ناموں کے ساتھ ملتا ہے کہ شیطان کس طرح بنی نوح انسان کو بہکاتا ہے اور اس کے کارندے اور چیلے کس طرح کام کیا کرتے ہیں اہل کتاب اور قدیم یونانی عقائد کے مطابق شیطان دنیا کے سات مقامات کو اپنے مراکز کے طور پر استعمال کرتا ہے یہ مقام دنیا کے مختلف ملکوں اور جزیروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور شیطان جب سے اس زمین پر آیا ہے یہ مقامات شیطان کا ہیڈ کوارٹر ہیں انہی سات مقامات کو شیطان کا مینار یا سیون ٹاورز آف ڈیول کہا جاتا ہے لوگوں کے درمیان فساد پھیلانے اور پوری دنیا میں اپنی شر و فتنہ کو پھیلانے کے تمام تر منصوبہ بندی شیطان انہی سات میناروں میں انجام دیتا ہے اس عقائد کی تائید نہ صرف اہل کتاب اور قدیم مذاہب کرتے ہیں بلکہ مسلم صوفیا اور محققین بھی ان سات میناروں کو تسلیم کرتے ہیں دراصل شیطان کے ان سات میناروں کا تعلق اسمان سے دھتکارے گئے فرشتے یعنی دی فعولین انجلز سے ہیں چنانچہ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ فالن انجلز آخر کون تھے فالن انجلز یا باغی فرشتوں کا ذکر عبرانی یا بائبل میں تو موجود نہیں لیکن یہودیوں کی ایک قدیم آسمانی صحیفہ بک اف انوک میں ان باغی فرشتوں کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق انسانوں کی تخلیق سے بھی پہلے خدا نے فرشتوں کی تخلیق کی تھی جن میں لوسیفر نامی یک خوبصورت اور ذہین فرشتہ خدا کا سب سے مقرب بندہ تھا جو خدا کا سب سے زیادہ پیارا تھا لوسیفر تمام فرشتوں کا سردار تھا اور اس کے پاس بے پناہ علم تھے جلد ہی لوسیفر اپنے علم اور طاقت پر غرور و تکبر کر بیٹھا لہذا وہ خود کو خدا سے برتر کہنے لگا اور اپنے تخت کو خدا کے تخت سے بھی بلند کرنا چاہتا تھا وہ خود کی بڑائی چاہتا تھا لوسیفر نے دوسرے فرشتوں کو بھی خدا کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا لہذا کچھ فرشتوں نے لوسیفر کی بات مان لی اور اس کے ساتھ ہو گئے تو خداوند نے لوسیفر اور اس کے ساتھیوں کو آسمان کی بادشاہت سے نکال کر انہیں زمین پر گرا دیا اور اسی وجہ سے وہ گرائے ہوئے فرشتے کہلائے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں زمین پر انسانوں کا نگران یعنی واچرز بنا کر بھیجا گیا تھا لیکن وہ انسانی عورت کے فتنے میں مبتلا ہو گئے خیال رہے کہ اہل کتاب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ باغی مخلوق فرشتے تھے لیکن اسلامی عقائد اسے باطل قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتے کبھی سرکشی اور نافرمانی نہیں کرتے البتہ اگر اس واقعے کو حقیقی مان بھی لیا جائے تو وہ گرائے گئے مخلوق جنات یا ابلیس اور اس کے ساتھی کو قرار دیا جا سکتا ہے بہرحال بہت سارے قدیم عقائد یہ کہتے ہیں کہ فالن انجلز زمین پر ان سات مقامات پر گرائے گئے تھے اور یہ وہی سات مقامات ہیں جسے شیطان اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرتا ہے شیطان کے ان سات میناروں کے متعلق ایک فرانسیسی مسلمان محقق عبدالواحد یحییٰ نے کافی تحقیق کی تھی عبدالواحد یحییٰ اسلامک میٹا فزکس کے ماہرین میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف اسلام بلکہ تصوف اور دیگر ایشیائی مذاہب اور عقائد کے متعلق کئی کتابیں تحریر کیں جو جدید فلسفے اور میٹا فزکس کے ضمن میں لکھی گئی ہیں جن میں ایک مشہور رسالہ المرفہ ہے جسے 20 سے زیادہ یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا کہتے ہیں کہ عبدالواحدیحییٰ نے اپنی تمام زندگی شیطان کے اس سات میناروں کی تلاش اور تحقیق میں صرف کر دی عبدالواحد نے ان سات میناروں کے متعلق تفصیلی چیزیں لکھی ہیں اور ساتھ ان مقامات کی نشاندہی بھی کر دی ہے جہاں وہ میناریں موجود ہیں جن میں شیطان کا پہلا مینار عرب افریقی ملک سوڈان میں موجود ہے جہاں قدیم زمانے میں مصر کے فرونیوں کی حکومت تھی اور جو مصری جادوگروں کی سرزمین کے نام سے مشہور تھا دوسرا مینار افریقہ کی ہی ایک ملک نائیجر میں ہے جہاں کبھی قدیم انسانی قبائل آباد ہوا کرتے تھے شیطان کا تیسرا مینار ملک شام میں ہے جہاں قدیم فاؤنیشن لوگ آباد تھے اور جو کبھی قد آور دیو قامت انسانوں کا مسکن تھا عبدالواحد کے مطابق شیطان کا چوتھا مینار ترکستان میں جبکہ پانچواں اور چھٹا مینا روس کی برفیلی پہاڑی سلسلوں کی مزید شمال یعنی سائبریا کی ویران علاقوں میں کہیں موجود ہے شیطان کا ساتواں مینار دنیا کی قدیم ترین سرزمین میسو پوٹامیا یعنی عراق میں موجود ہے یہ ساتواں مینار ہی بقیہ تمام میناروں کو کنٹرول کرتا ہے اور تمام تر شیطانی منصوبے اس مینار کے اندر ہی شیطان کی ان سات میناروں کا تصور صرف یہود و نصاری کی صحیفوں میں ہی موجود نہیں بلکہ ایک قدیم مشرقی مذہب میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے جسے یزیدی مذہب کے نام سے جانا جاتا ہے یزیدی مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ایک ہے جو ایران یعنی قدیم فارس میں زرتشت کی آمد سے پہلے سے موجود تھی یزیدی عقائد کے مطابق یزدان یعنی خداوند نے اس کائنات کو بنایا اور پھر سات بڑے فرشتوں کو پیدا کیا جو اس کے سب سے زیادہ فرمانبردار تھے جن کا نام دردائیل، جبرائیل، عزرائیل میکائیل ،ازازیل، اسرافیل اور ملک طاؤس ہے ان میں سب سے مقرب فرشتہ ملک طاؤس تھا جسے بہت سارے علم اور طاقت عطا کی گئی تھی لیکن جب ملک طاؤس نے ادم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو یزدان نے طاؤس کو جہنم میں ڈال دیا طاؤس اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور اتنا رویا کہ انسوؤں سے جہنم کی آگ بجھ گئی لہذا خداوند نے اسے معاف کر دیا یہ طاؤس کوئی اور نہیں بلکہ ابلیس لعین تھااور یزیدی اسی شیطان کی پوجا کرتے ہیں جس کی شبی وہ کسی مور یا سانپ کی شکل میں پیش کرتے ہیں یزیدیوں کابھی ماننا ہے کہ ملک طا ؤس یا شیطان اپنی حکومت دنیا میں موجود سات مختلف مقامات سے چلاتا ہے اور وہ ان میناروں کو مقدس مانتے ہیں انہوں نے عراق کے شمالی حصوں میں ان سات میناروں کی فرضی عمارتیں بھی بنا رکھی ہیں جس کی زیارت ہر یزیدی پر فرض ہے ہر زمانے میں مختلف سلطنتوں اور حکومتوں نے اس جگہ سے یزیدیوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی لیکن وہ سب ناکام رہے اور ہزاروں سالوں سے یزیدی قوم اسی جگہ آباد ہے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یزیدی جس مقام پر آباد ہے یہ جگہ ملک طاؤس کی سرزمین ہے جہاں اس کا ساتواں مینار قائم ہے جس کی حفاظت یہ یزیدی کرتے ہیں سال 2006 میں جب امریکی فوج عراق پر قابض ہوئی تھی تو امریکی فوج کے سپاہیوں نے بتایا تھا کہ کرتستان اور عراق کے یزیدی علاقوں میں انہوں نے ایک عجیب و غریب مخلوق کو کئی مرتبہ دیکھا تھا جب انہوں نے اس مخلوق کی تلاش کی تو انہیں اس مقام پر نہ کوئی ثبوت ملے نہ قدموں کے نشانات جہاں انہوں نے اسے دیکھا تھا فوج کے سپاہیوں کے ساتھ ایسے کئی واقعات ہوئے کہ جب انہوں نے انسان نما لمبے قد کی مخلوق کو دیکھا لیکن جب وہ ان کے قریب گئے تو وہ ہوا میں بکھر کر غائب ہو گیا مقامی مسلمان اسے زول جن کہا کرتے تھے جبکہ یزیدیوں کا ماننا تھا کہ وہ ملک طاؤس ہے جو اس علاقے میں رہتا ہے اور وقتا فوقتا نظر آ جاتا ہے۔ عبدالواحد نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سات مقامات ایک دوسرے سے کسی خاص منفی قوت کے تحت جڑے ہوئے ہے یہ شیطانی قوت زمین میں موجود مگنیٹک فیلڈ جیسا ہے کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ سات مینار جس مقام پر موجود ہیں وہاں سے دراصل دوسری دنیا کے دروازے کھلتے ہیں جنہیں جدید سائنس پورٹلز کا نام دیتی ہے ان پورٹل سے خلائی مخلوق جنات اور شیطان اس دنیا میں آتے ہیں جنہیں وہاں کے مقامی باشندوں نے دیکھنے کے کئی واقعات بیان کیے ہیں مغربی محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سال 1940 میں جب ہٹلر کی نازی افواج پوری دنیا میں تباہی پھیلا رہی تھی تو نازی سائنسدانوں اور ماہرین نے ان سات میناروں کو تلاش کرنے پر بہت کوششیں کی اور اس مینار کو کھوج نکالنے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے مگر 1945 میں سیکنڈ ورلڈ وار کے نتیجے میں نازی تباہ و ہلاک ہو گئے لیکن اج بھی بہت ساری تنظیمیں ان سات میناروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو اس دنیا میں برائی کا سب سے بڑا منبع ہے اور جہاں تک پہنچ کر نہ جانے کن کن طاقتوں اور شیطانی قوتوں سے جڑا جا سکتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں