﷽
السلام علیکم
مصر کا مشہور شہر قاہرہ تھا. بہار کا موسم تھا. ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا ، ایک لڑکی گھوڑے پر سوار تھی . اور زور زور سے چیخ رہی تھی. اور کچھ فریاد کر رہی تھی اور اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین اپنی سواریوں پر موجود تھے ان کی نیام میں تلواریں باہر نکل چکی تھیں اور تمام لوگ تلواریں لہراتے ہوئے اس لڑکی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں آرہے تھے یہ واقعہ بہت دلچسپ ہے.
اس وجہ سے تاریخ کے بہت سے مورخین اس کو نقل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور اس واقعہ کو ایک یورپی مورخ لین پال نے اپنی مشہور کتاب صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی بہادری میں بیان کیا تھا۔ سلطان کے محل کے دروازے پر موجود سنگتری بھی حیران و پریشان ہو گئے کہ آخر اتنا بڑا قافلہ اور ان کے درمیان میں ایک اکیلی لڑکی اور وہ بھی اتنی خوبصورت اور حسین و جمیل جس کی آنکھیں ہرنی جیسی تھیں . قدرت کا کوئی خاص کرشمہ لگتی تھی۔ سپاہی پریشان ہو گئے کہ آخر مسئلہ کیا ہے ? سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو اس بات کی خبر دی گئی بعد میں سلطان کے چند عام سپاہی اس لشکر کی طرف روانہ ہو گئے اور جاکر معلوم کیا تا کہ پتہ چل سکے کہ آخر یہ اتنا بڑا قافلہ ہزاروں کی تعداد میں کیا کرنے کے لیے آرہا ہے چاندی لمحوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو خبر دی گئی کہ حضور آپ کی عدالت میں اپنی نوعیت کا ایک انو کھا اور منفر د مقدمہ لایا جارہا ہے اس مقدمے کو بڑے بڑے قاضی بڑے بڑے امیر وزیر نہیں حل کر سکے یہ مقدمہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی کا مقدمہ ہے جو آپ کے پاس لایا جارہا ہے یہ بات سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے سنی تو وہ بھی بڑا پریشان ہو گیا اور سوچنے لگے کہ آخر ایک مقدمے کی خاطر اتنا بڑا قافلہ کیوں آرہا ہے جب سلطان نے محل کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو قافلے کی تعداد ہزاروں میں تھی، بہار کا موسم تھا. لہذا اسلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسی وقت تمام محل کے نوکروں کو بلا کر حکم دو کہ محل کے باہر کھلے میدان میں عدالت لگانے کے لیے بندوبست کیا جائے. قافلے کے پہنچنے سے پہلے ہی چند ہی گھنٹوں میں عدالت لگ گئی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنے کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ پریشان تھے لیکن پریشانی یہ نہیں تھی کہ آخر اتنا بڑا قافلہ کیوں آرہا ہے ؟ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ایک آخر اتنابڑا قافلہ کیوں آرہا ہے ؟ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ایک لڑکی کا تمام لوگ اس طرح محاصرہ کر کے کیوں لے کر آرہے تھے یہ بات سلطان کے لیے پریشانی کی وجہ تھی . سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ ابھی کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ سلطان کو سپاہی نے آکر خبر دی. حضور تمام لوگ عدالت میں پہنچ چکے ہیں. اور سردار کی بیٹی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے لہذا لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب سلطان کے وزیروں نے خبر سنی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے محل کے باہر کھلی عدالت لگانے کا فیصلہ کیا تو تمام وزیر اور مشیر حتی کے سلطان کے تمام کمانڈر بھی آپ کے احترام میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں پہلے پہنچ چکے تھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کھلے میدان میں پہنچے تو سلطان کے لیے ایک خاص نشست بنائی گئی تھی سلطان اس پر تشریف فرما ہوئے سلطان نے ہر طرف نظر دوڑائی تو ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے ایک طرف عور تیں تھیں تو دوسری طرف مرد تھے تمام مردو خواتین کے ہاتھوں میں تلواریں اور وہ بھی نیام سے نکلی ہوئی تھیں ایک بزرگ بوڑھا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی لیکن اسی تلوار کے سہارے وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا اور ایک نوجوان لڑکی کٹہرے میں کھڑی رور ہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ بڑا پریشان ہوا کہ آخر ایسا کون سا مقدمہ ہے جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ میری عدالت میں حاضر ہوئے ہیں اس وقت کے مورخین لکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اتنی تعداد میں کبھی بھی کسی عدالت میں اتنے لوگ جمع نہیں ہوئے جتنا اس دن سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں اس لڑکی کے مقدمے کے لیے حاضر ہوئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس بزرگ بوڑھے سردار سے پوچھا بابا جی بتاؤ آخر بات کیا ہے آخر اتنا بڑا قافلہ اس عدالت میں کیوں حاضر ہوا اور آخر اس لڑکی نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا اتنے میں قبیلے کا سر دار جو کہ تلوار کے سہارے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا بڑی مشکل سے دو آدمیوں کے سہارے سے اپنی ٹانگوں پر کھڑ ا ہوا اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے رورو کر بتانے لگا سلطان معظم میں بورسیہ قبیلہ کا سر دار ہوں ہمارا قبیلہ ہزاروں خیموں پر مشتمل ہے اور تمام قبیلے کے لوگ جانتے ہیں کہ میں کس کر دار کا مالک ہوں. لہذا میں اپنے منہ سے اپنا تعارف نہیں کر اسکتا. اور دوسری بات کہ میری دو شادیوں کے باوجود اللہ تعالی نے مجھے صرف ایک بیٹی سے نوازا . میں نے پھر بھی اللہ تعالی کا ہر وقت شکر ادا کیا. اور اپنی بیٹی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا تھا میں نے اپنی بیٹی کی وہ تربیت کر رکھی تھی کہ میری بیٹی کسی بیٹے سے کم بھی نہیں تھی اور میری بیٹی کسی سلطان کی بیٹی سے بھی کم نہیں تھی میری بیٹی ایک اچھی جنگجو ایک حاضر دماغ اور باکردار لڑکی تھی اور میں اپنی بیٹی پر بہت فخر کرتا تھا. سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اس بوڑھے بزرگ کی طرف متوجہ تھے . وہ بوڑھا بزرگ کہہ رہا تھا سلطان معظم میری بیٹی کے خوف کی وجہ سے پورے قبیلے میں کسی مرد میں ہمت نہیں تھی کہ وہ قبیلے کی کسی نامحرم عورت کی طرف غلط نظر اٹھا کر دیکھے لیکن شرمندگی کی بات اس وقت ہوئی اور اس وقت میری کمر ٹوٹی کہ جس لڑکی کے ڈر سے قبیلے کے مرد دوسری لڑکیوں کو بری نظر سے نہیں دیکھتے تھے وہ لڑکی آج بغیر شادی شدہ حاملہ ہو گئی تھی جب یہ بات بزرگ نے کہی تو اس لڑکی کی آنکھوں سے خون جیسے آنسو آنے لگے اس وقت عدالت میں اس طرح سناٹا چھایا جیسے بادل گرجنے کے بعد آسمان پر سناٹا ہو جاتا ہے قافلے میں موجود اکثر لوگوں کے چہرے پر اداسی نمایاں تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سارے معاملے کو باغور سن رہے تھے. پھر وہ بزرگ کہنے لگا سلطان معظم جب اس بات کی خبر مجھے لگی کہ میری بیٹی بغیر شادی شدہ ہونے کے بھی حاملہ ہو چکی ہے اور اس کے پیٹ میں ایک نا جائز بچہ پر وریش پا رہا ہے اور وہی بچہ کل کو قبیلے کا سردار بنے گالہذا جب مجھے یہ بات پتہ چلی تو میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اس بچے کے اس دنیا سے آنے سے پہلے ہی میں اپنی بیٹی کا گلا کاٹ دوں گا. لہذا میں نے اپنے جرگے میں فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کو میں تمام قبیلے والوں کے سامنے ہی اس کا سر قلم کر دوں گا تا کہ مجھے ساری زندگی یہ ذلت نہ اٹھانی پڑے اور جب پھر میری بیٹی کی سزا کا وقت ہو ا تو اس وقت ہمارے قبیلے کے ایک چھوٹے سردار نے مجھے مشورہ دیا کہ حضور بے شک آپ کے پاس اختیار ہے آپ اس بات کی طاقت بھی رکھتے ہیں کہ کہ ہر چھوٹے بڑے بزرگ مردوخواتین پر آپ کا اختیار ہے اور آپ جس کو چاہیں جو بھی سزا دینا چاہیں دے سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم ایک ایسے سلطان کی سرزمین پر رہتے ہیں جس کا مقصد ساری زندگی اس دھرتی پر انصاف کا قائم کرنا ہے اور انصاف بھی ویسا جو کہ عین اسلامی اصولوں ہم نے بغیر مجرم کو تلاش کیے اور بغیر اس معاملے کی تحقیق کیسے آپ نے اپنی بیٹی کو سزا دے دی تو اس طرح نہ ظلم روکے گا اور نہ ہی انصاف قائم ہو گا۔ حتی کہ لوگوں کے دلوں میں مزید خوف اور نفرت پید ا ہو جائے گی. لہذا ہمیں اس مقدمے کو لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں جانا چاہیے. سلطان سلطان معظم جو بھی فیصلہ کریں گے وہ تمام قبیلے والوں کو منظور ہو گا اور اس لیے میں بیٹی کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور تمام قبیلے والوں کے ساتھ سوائے چند خواتین کے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ان کو لے کر آپ کی عدالت میں حاضر ہو گیا ہوں اور میں چاہتاہوں کہ اس مقدمے کا فیصلہ تمام لوگوں کے سامنے ہو تا کہ یہ لوگ اس مقدمے کے فیصلے سے عبرت حاصل کر سکیں اور یہ بات تاریخ میں لکھی جائے گی کہ ہزاروں خیموں پر مشتمل قبیلے کے سردار نے اپنی اکلوتی بیٹی کو کسی نامحرم کے ساتھ زنا کرنے پر اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا کاٹا تھا. لہذا اس فیصلے کے بعد کسی میں ایسا کام کرنے کے بارے میں کبھی کسی کی جرات نہ ہو گی . سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ یہ سب سننے کے بعد بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ آخر ایک لڑکی اتنے بڑے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہونے کے بعد اتنی بہادر سپاہی ہونے کے بعد بھی آخر اتنا بڑا اقدم کیسے اٹھا سکتی ہے آخر اس لڑکی سے اتنا بڑا گناہ کیسے سرزد ہوا اور سب سے بڑی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ لڑکی یعنی کہ میری بیٹی اپنا گناہ ماننے سے انکار کر رہی ہے اور خدا کی قسم اٹھا کر کہتی ہے کہ مجھے اگر روزہ رسول پر بھی لے جایا جائے تو میں وہاں پر بھی یہی کہوں گی کہ میں نے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ کسی مرد کے ساتھ کوئی بدکاری نہیں کی سارے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ شاہی حکیم کو حاضر کرو اور اس کو کہو کہ اپنے ساتھ ایک خاتون حکیم بھی لے کر آؤ. سلطان کے حکم پر شاہی حکیم ایک خاتون حکیم کو لے کر سلطان کے پاس حاضر ہوا. سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے خاتون حکیم کو اپنے پاس بلایا اور کہا سر دار کی بیٹی کو ایک کمرے میں لے جاؤ اور جاکر معائنہ کرو اور اس کے بعد مجھے آکر خبر دو خاتون حکیم نے بزرگ کی بیٹی کو اپنے ساتھ لیا اور ساتھ والے کمرے میں چلی گئی آدھے گھنٹے کے بعد جب وہ کمرے کے باہر نکلی تو آکر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو خبر دی جس خبر نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے رونگٹے کھڑے کر دیے اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو کہا کہ سلطان معظم دیے گئے تجربے اورمیری اپنی عقل مندی سے مجھے یہی پتہ چلا کہ یہ لڑکی حاملہ ہے اس کے رحم میں ایک بچہ پرورش پارہا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ لڑکی ابھی تک پاک دامن ہے اور اس کا پر دہ بقارت زائل نہیں ہوا اور اس بات کی سمجھ مجھے نہیں آرہی کہ جسے لڑکی کا پر دہ بقارت زائل نہ ہو وہ حاملہ کیسے ہو سکتی ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ساری باتیں سنی تو بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا عجیب صور تحال ہو چکی ہے لہذا پریشانی کے عالم میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سوچنے لگا اور اتنی گہری سوچ میں پڑ گیا کہ تمام لوگ آپ کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ تمام درباریوں سے مخاطب ہوا اور کہا میں دو نفل نماز ادا کرنے کے بعد ہی اس مقدمے کا فیصلہ کروں گا تمام لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کا ان تظار کرنے لگے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے دو نفل نماز ادا کی اور اس کے بعد مصلے پر دعامانگنے لگے اور فرمایا اے میرے مالک تو نے مجھے کس امتحان میں ڈال دیا مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ قبیلے کے سردار کی بیٹی پاک دامن اور باکردار ہونے کے بعد بھی حاملہ کیسے ہو سکتی ہے اے میرے مالک میری رہنمائی فرما۔ اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ دعا مانگ کر واپس عدالت میں تشریف لے آئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی نشست پر پریشانی کی حالت میں تشریف فرما تھے کیونکہ یہ مسئلہ بہت بڑا تھا. ایک عورت کے پیٹ میں ایک بچہ پرورش پار ہا تھا۔ لیکن اس عورت کاکردار بالکل پاک صاف تھا۔ اس عورت کو کسی نے چھوا تک نہیں. یہ بات سلطان حتی کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے دماغ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور کا ایک واقعہ یاد آیا اور اس واقعے کی مماثلت اس لڑکی کے واقعے سے بہت زیادہ تھی لہذ ا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ ابھی اور اسی وقت بڑا سا ایک برف کا ٹکڑالے کر حاضر کیا جائے سلطان کا حکم تھا سلطان کے سپاہی گئے اور بڑاسا برف کا ٹکڑالے کر آگئے اب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی دو کنیزوں کو برف کا ٹکڑا دیتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی کو ایک کمرے میں لے جاؤ اور اس برف کے ٹکڑے کے اوپر بیٹھا دو اور چند لمحے انتظار کرو اس کے بعد آکر مجھے خبر دو تمام لوگ بڑے حیران وپریشان تھے کہ آخر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کیا کرنے والے ہیں دونوں کنیزیں اس لڑکی کو لے کر اندر پریشان تھے کہ آخر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کیا کرنے والے ہیں دونوں کنیزیں اس لڑکی کو لے کر اندر چلی گئیں۔ چند لمحوں کے بعد دونوں کنیزیں باہر آئیں۔ تو انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو کچھ بتایا۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکیم خاتون کو کہا کہ دوبارہ اس لڑکی کو کمرے میں لے جاؤ اور جا کر اس کا معائنہ کرو. جب وہ لڑکی دوبارہ کمرے کے اندر گئی تو تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ واپس باہر آئی اور خاتون حکیم نے آکر سلطان کو بتایا اور جو حقیقت اس نے سلطان کو بتائی یہ سن کر تمام لوگوں کے دل و دماغ سن ہو گئے اور وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ آخر ہو کیا رہا ہے اس حکیم خاتون نے بتا یا سلطان معظم یہ لڑکی جو آپ کے سامنے کھڑی ہے ابھی بھی اس کا دامن پہلے کی طرح پاک ہے اور اب اس کے پیٹ سے بچہ غائب ہو چکا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں اب کوئی بھی بچہ پرورش نہیں پار ہا اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ مسکرانے لگے اور ان دونوں کنیزوں کو اپنے سامنے بلایا اور کہا ساری حقیقت ان درباریوں کے سامنے بیان کروں. تو انہوں نے کہا سلطان معظم جب ہمیں برف کا ٹکڑادیا تو ہم نے اس برف کے ٹکڑے کے اوپر اس لڑکی کو بٹھا دیا جب تھوڑی دیر گزری تو اس برف کے ٹکڑے کی ٹھنڈ کی وجہ سے اس لڑکی کے پیٹ میں ایک کیڑا پر ورش پار ہا تھاوہ ٹھنڈ کی وجہ سے باہر آگیا۔ اور وہی کیڑا ہی اس لڑکی کے پیٹ میں پرورش پارہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس لڑکی کا پیٹ پھول گیا تھا اور حکیم خاتون نے کی وجہ سے اس لڑکی کا پیٹ پھول گیا تھا اور حکیم خاتون نے سمجھا کہ یہ حاملہ ہو چکی ہے یہ سن کر اس بزرگ کی جان میں جان آگئی اور ایسالگ رہا تھا کہ وہ بزرگ سترہ سالہ نوجوان بن گیا تھا پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام درباریوں کے سامنے حکم دیا کہ یہ لڑکی بالکل پاک دامن اور پاک باز ہے. پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس بزرگ آدمی سے پوچھا۔ کبھی تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا کہ یہ پانی میں ڈوبتے ڈوبتے بچی ہو تو اس نے کہا جی ہاں سلطان معظم ایک دن میں اپنی بیٹی کے ساتھ دوسرے قبیلے جارہا تھا راستے میں ہم پر دشمنوں نے حملہ کر دیا گھوڑے آگ کے شعلوں کی وجہ سے ادھر ادھر دوڑنے لگے اور اسی کشمکش میں گھوڑے سے دوڑتے ہوئے میری بیٹی پانی میں گر گئی اور اس کا سر پتھر پر لگا جس کی وجہ سے میری بیٹی بے ہوش ہو گئی خوش قسمتی سے اس کا سر باہر تھا لیکن اس کا سارا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا آدھا دن تلاش کرنے کے بعد بیٹی کو وہاں سے جا کر تلاش کر لیا اور اللہ کی مدد سے میری بیٹی با حفاظت اپنے قبیلے پہنچ گئی یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ واقعہ کتنا پرانا ہے تو قبیلے کے سردار نے کہا اس واقعے کو تقریبا ایک ماہ گزر چکا ہے تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام درباریوں کے سامنے کہا کہ یہ خاص قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو کہ اکثر جانوروں اور انسان کے پیٹ میں پلتا ہے اور جب تیری بیٹی پانی میں گری تو اسی کیچڑ میں یہ کیڑا موجود تھا اور بے ہوشی کی حالت کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہ چلا اور وہ کیڑا جو ابھی چھوٹا تھا اس کے رحم سے اس کے پیٹ میں داخل ہو گیا اور اس کے پیٹ میں پرورش پاتا رہا جب یہ کیڑا اپنے جسم میں بڑھا تو اسے پتہ چل گیا اور لوگوں کو لگا کہ یہ حاملہ ہو چکی ہے۔ حالانکہ اس کو آج تک کسی نامحرم نے چھوا تک نہیں. جب یہ بات سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے کہی تو تمام لوگ حیران و پریشان ہو گئے اور پھر تمام لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو دعائیں دینے لگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں