﷽
ایک مرتبہ کسی نے قاری عبدالباسط سے پوچھا، قاری صاحب ! آپ اتنا مزے کا قرآن مجید پڑھتے ہیں ، آپ نے بھی کبھی قرآن مجید کا کوئی معجزہ دیکھاہے ؟ وہ کہنے لگے ، قرآن کا ایک معجزہ؟ معلوم نہیں کہ میں نے قرآن کے سینکڑوں معجزے آنکھوں سے دیکھے ہیں۔انہوں نے کہا ، کوئی ایک تو سنا دیجئے ۔ تو یہ واقعہ انہوں نے خود سنایا۔قاری صاحب فرمانے لگے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب جمال عبدالناصر مصر کا صدر تھا ۔ اس نے رشیا ( روس )
کاسرکاری دورہ کیا۔ وہاں پر کمیونسٹ حکومت تھی۔اس وقت کمیونزم کا طوطی بولتا تھا۔ دنیا اس سرخ انقلاب سے گھبراتی تھی۔ جمال عبدالناصر ماسکو پہنچا۔ اس نے وہاں جاکر اپنے ملکی امور کے بارے میں کچھ ملاقاتیں کیں۔ملاقاتوں کے بعد انہوں نے تھوڑا سا وقت تبادلہ خیالات کے لئے رکھا ہوا تھا۔اس وقت وہ آپس میں گپیں مارنے کے لئے بیٹھ گئے ۔ جب آپس میں گپیں مارنے لگے تو ان کیمونسٹوں نے کہا ، جمال عبد الناصر ! تم كيا مسلمان بنے پھرتے ہو تم ہماری سرخ کتاب کو سنبھالو، جو کیمونزم کا بنیادی ماخذ تھا ، تم بھی کمیونسٹ بن جاؤ، ہم تمہارے ملک میں ٹیکنالوجی کو روشناس کرادیں گے تمہارے ملک میں سائنسی ترقی بہت زیادہ ہو جائے گی اور تم دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہو جاؤ گے ، اسلام کو چھوڑو اور کیمونزم اپنالو جمال عبدالناصر نے انہیں اس کا جواب دیا تو سہی مگر دل کو تسلی نہ ہوئی ۔اتنے میں وقت ختم ہوگیا اور واپس آگیا۔ مگر دل میں کسک باقی رہ گئی کہ مجھے اسلام کی حقانیت کو اور بھی زیادہ واضح کرنا چاہئے تھا ، جتنا مجھ پر حق بنتا تھا میں اتنا میں نہیں کرسکا ۔ دو سال کے بعد جمال عبدالناصر کو ایک مرتبہ پھر رشیا جانے کا موقع ملا قاری صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے صدر کی طرف سے لیٹر ملاکہ آپ کو تیاری کرنی ہے اور میرے ساتھ ماسکوجانا ہے۔ کہنے لگے کہ میں بڑا حیران ہواکہ قاری عبدالباسط کی تو ضرورت پڑے سعودی عرب میں عرب امارات میں ، پاکستان میں ، جہاں مسلمان بستے ہیں۔ماسکو اور رشیا جہاں خدا بے زار لوگ موجود ہیں، دین بے زار لوگ موجود ہیں وہاں قاری عبدالباسط کی کیا ضرورت پڑگئی ۔ خیر تیاری کی اور میں صدر صاحب کے ہمراہ وہاں پہنچا۔ وہاں انہوں نے اپنی میٹنگ مکمل کی ۔ اس کے بعد تھوڑا ساوقت تبادلہ خیالات کے لئے رکھا ہوا تھا فرمانے لگے کہ اس مرتبہ جمال عبد الناصر نے ہمت سے کام لیا اور ان سے کہا کہ یہ میرے ساتھی ہیں جو آپ کے سامنے کچھ پڑھیں گے، آپ سنئے گا۔وہ سمجھ نہ پائے کہ یہ کیا پڑھے گا ۔ وہ پوچھنے لگے کہ یہ کیا پڑھے گا۔وہ کہنے لگے کہ یہ قرآن پڑھے گا۔ انہوں نے کہا ، اچھا پڑھے۔ فرمانے لگے کہ مجھے اشارہ ملا اور میں نے پڑھنا شروع کیا ۔ سورۃ طہ کا وہ رکوع پڑھنا شروع کردیا جسے سن کر کسی دور میں حضرت عمر بن الخطاب بھی ایمان لے آئے تھے کہ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى إِلا تَذْكِرَةً لَّمَنْ يُخْشى۔۔۔۔۔۔ اِنَّنِى اَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِي وَأَقِمِ الصلوة لذکری فرماتے ہیں کہ میں نے جب دو ركوع تلاوت کرکے آنکھ کھولی تو میں نے قرآن کا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ سامنے بیٹھے ہوئے کمیونسٹوں میں سے چار یا پانچ آدمی آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ جمال عبدالناصر نے پوچھا ، جناب ! آپ رو کیوں رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم تو کچھ نہیں سمجھے کہ آپ کے ساتھی نے کیا پڑھا ہے مگر پتہ نہیں کہ اس کلام میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ہمارے دل موم ہوگئے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئیں ، اور ہم کچھ بتا نہیں سکتے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔۔۔؟ سبحان الله ، جو قرآن کو مانتے نہیں ، قرآن کو جانتے نہیں اگر وہ بھی قرآن سنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں بھی تاثیر پیدا کردیا کرتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں