ناظرین گرامی اللہ کے اولین پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام ہیں جنہیں ابوابشر یعنی انسان کا باپ اور صفی اللہ یعنی خدا کا برگزیدہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے زمانے کا ٹھیک طور سے تعین نہیں کیا جا سکتا کچھ علماء کے نزدیک آپ کا وقت چھ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آج ہم حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جس سے ہر مسلمان بچے ،بوڑھے اور مرد و عورت کا آگاہ ہونا ضروری ہے دوستوں سلسلہ قصص الانبیاء کی یہ پہلی قسط۔ ناظرین قران مجید میں بیان ہونے والے بہترین قصوں میں سے ایک بنی نو انسان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا ہے آپ اللہ تعالی کے پہلے نبی ہیں اور آپ کا قصہ قرآنِ مجید کی مختلف سورتوں میں متعدد دفعہ بیان ہوا ہے۔ سورۃ البقرہ میں ہے میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں یعنی اللہ پاک نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی خبر دی جس طرح کسی بھی عظیم کام کو وجود میں لانے سے پہلے دی جاتی ہے۔ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اللہ پاک کی حکمت کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند تھے انہوں نے عرض کی کیا تو ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کچھ تو خون کرتا پھرے؟ اس سوال کا مقصد نہ تو اللہ پاک پر اعتراض کرنا تھا اور نہ انسان سے حسد ہی تھا محض اس میں اللہ پاک کی حکمت معلوم کرنا تھا اور اللہ پاک نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے. روایت میں آیا ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو حکم ہوا کہ زمین سے ہر قسم کی سرخ و سفید اور سیاہ مٹی کی ایک مٹھی لائیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اللہ پاک نے اس مٹھی پر باران رحمت برسایا اور اپنی قدرت کاملہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا اس مٹی کے خمیر سے بنایا اور 40 برس تک وہ غالب وہاں بے جان پڑا رہا ۔فرشتے پاس سے گزرتے تو اس جسم کو دیکھ کر ڈر جاتے۔ ابلیس سب سے زیادہ خوفزدہ تھا وہ پاس سے گزرتے ہوئے اسے ضرب لگاتا تو ایسی آواز آتی جس طرح مٹی کے بنے ہوئے برتن سے کوئی چیز ٹکرائے تو آواز آتی ہے اس لیے جب وہ ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے مخاطب ہوتا تو کہتا تجھے کسی خاص مقصد سے پیدا کیا گیا ہے ۔ایک روایت کے مطابق پھر وہ اس خاکی کے جسم میں منہ کی طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل گیا اور فرشتوں سے کہا اس سے مت ڈرو تمہارا رب سمد ہے لیکن یہ تو کھوکھلا ہے اگر مجھے اس پر قابو دیا گیا تو اسے ضرور تباہ کر دوں گا۔ جب عنایت الہی نے چاہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا ستارہ اقبال روشن اور بنی آدم کا مرتبہ تمام مخلوق پر ظاہر ہو تو روح پاک کو حکم صادر ہوا کہ آدم علیہ السلام کے بدن میں داخل ہو روحِ قالب حضرت آدم علیہ السلام کے سر مبارک کی طرف سے داخل ہوئی جس جگہ روح پہنچتی بندہِ خاکی گوشت اور پوست سے بدلتا جاتا تھا ۔جب روح آنکھوں میں داخل ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کے پھل نظر آئے جب روح پیٹ تک پہنچی تو آپ کو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی اور حضرت آدم علیہ السلام نے جلدی سے اٹھنے کا ارادہ کیا اور وہیں زمین پر گر پڑے کیونکہ روح ابھی ٹانگوں میں داخل نہ ہوئی تھی اس لیے اللہ پاک نے قران پاک میں فرمایا ہے انسان جلد باز ہے الانبیاء 21 تا 37 اور اسی حالت میں حضرت آدم علیہ السلام نے چھینکا اور الہام الہی سے کہا الحمدللہ اس کریم اور رحیم رب نے اسی رحمت سے فرمایا یرحمک اللہ۔ سب سے پہلے اللہ پاک کی رحمت کا جلوہ حضرت آدم علیہ السلام کو ہوا اور پھر ان کے طفیل بنی آدم کو نصیب ہوا اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرما کر تختِ عزت اور عظمت پر بٹھایا قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس عزت افزائی کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش پر فرشتے ابتدا میں کہتے تھے کہ جس کو اللہ پاک خاک سے پیدا کر کے خلافت کی مسند پر بٹھائے گا تو وہ خدا کے نزدیک ہم سے زیادہ عزیز نہ ہوگا کہ ہم دن رات بارگاہ اللہ ملغیوب میں رہتے ہیں ہمارا علم اس سے زیادہ ہوگا اللہ پاک نے موجب آیت اور آدم کو تمام نام سکھا دیے یعنی تمام چیزوں کے نام حضرت آدم علیہ السلام کو الہام کر کے حکم دیا کہ فرشتوں سے ان چیزوں کے نام پوچھو جب حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں سے پوچھا خبر دو میرے تئیں ان چیزوں کے نام سے اگر تم سچے ہو تب فرشتے جواب سے عاجز ہوئے اور اپنے قصور سے معترف ہو کر بولے پاک ہے تو اور نہیں علم ہمارے تئیں مگر جو تو نے سکھایا ہم کو اور تو ہی پورے علم و حکمت والا ہے۔ تب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو کمالِ ظاہر و باطن سے آراستہ کیا اور ان کی تعظیم و تکریم کے لیے ملائک کو حکم کیا کہ سجدہ کرو آدم کو سب فرشتوں نے حکم الہی کے سبب بلا اجر و تکرار حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا اور بولا میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اس نافرمانی سے شیطان ملعون ابدی ہو کر فرشتوں سے نکالا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام بہشت میں رہنے لگے اللہ پاک نے سورہ الحجرات میں حضرت آدم علیہ السلام اور جنوں کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ اور ابلیس کے سجدے سے انکار کے بعد اس پر لعنت کی ہے اس نے لعنتی قرار پانے پر بنی آدم کی دشمنی کا اعلان کر دیا اور اللہ پاک سے تا قیامت اس کی مہلت طلب کی یہ واقعہ سورہ الحجرات میں اس طرح بیان ہوا ہے ایک دن جب آدم علیہ السلام پر خواب نے غلبہ کیا تو وقتِ خواب اللہ پاک نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم علیہ السلام کے پہلو سے بی بی حواعلیہ السلام کو پیدا کیا آدم علیہ السلام بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ایک پاکیزہ عورت ان کے پاس بیٹھی ہے وہ انہیں دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور پوچھا تو کون ہے حضرت حوا علیہ السلام نے کہا کہ میں تیرے بدن کا جز ہوں اللہ پاک نے مجھے تیری پسلی سے پیدا کیا اللہ پاک نے انہیں بے پناہ حسن سے نوازا تھا حضرت آدم علیہ السلام سجدہ شکر بجا لائے۔ سورہ اعراف میں آیا ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے راحت حاصل کرے۔ اور پھر ان دونوں کو حکم ہوا کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو سب میوے کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا اللہ پاک نے اس درخت کے نام کا تعین نہیں فرمایا لہذا اس میں حتمی رائے سے اجتناب بہتر ہے علماء اور مفسرین کی آرا بھی اس بارے میں مختلف ہے حضرت آدم و حوا نے جو پھل کھایا تھا وہ کون سا پھل تھا اس پر تین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک گروہ تو یہ کہتا ہے کہ چونکہ قران و حدیث میں واضح طور پر اس پھل کے بارے میں نہیں بتایا گیا تو ہمیں بھی خاموش رہنا چاہیے۔ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ پھل گندم کا تھا جیسا کہ بائبل سے علم ہوتا ہے ایک اور اقلیتی گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ پھل جنسی آزادی کا تھا یہی وجہ ہے کہ جب دونوں نے یہ پھل چکھا تو برہنگی کا احساس ہوا۔ بہرکیف دیگر باتیں ان تفصیلات میں جانے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ناظرین آدم و حوا اپنی اس خطا پر سخت نادم ہوئے ان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ قران کریم میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے اور کہا ہم نے کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جو چاہو بفراغت کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے شمار ہو گئے پھر شیطان نے ان دونوں سے اس درخت کی وجہ سے لغزش کرا دی پس ان کو جنت سے خارج کروا دیا اس راحت و سکون کی حالت سے کہ جس میں وہ رہ رہے تھے ہم نے حکم دیا کہ نیچے اترو تم میں سے بعض بعضوں کے دشمن ہوں گے تمہیں ایک خاص معیاد تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا سورہ اعراف میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے بدن کا پردہ جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا دونوں کے روبرو ظاہر کر دے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ اور ان دونوں کے روبرو قسم کھائی کے جانیے میں آپ دونوں کا خیر خواہ ہوں پس ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جو درخت کو چکھا تو دونوں کے بدن ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہو گئے اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے ممانعت نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اسی سورہ اعراف میں تھوڑا آگے چل کر انسانوں کو تلقین کرتے ہوئے مزید ارشاد باری تعالی ہوتا ہے اے آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین یعنی آدم و حوا کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیے تھے سورہ طہ میں اللہ تعالی مزید ارشاد فرماتا ہے اور اس سے قبل ہم آدم کو ایک تاکیدی حکم دے چکے تھے سو ان سے غفلت اور بے احتیاطی ہو گئی اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی ۔اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اس نے انکار کیا پھر ہم نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ اے آدم یاد رکھو یہ بلا شبہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے سو تم دونوں کو کہیں جنت سے نہ نکلوا دے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ یہاں جنت میں تو تمہارے لیے یہ آرام ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے رہو گے نہ کبھی ننگے ہو گے اور نہ یہاں پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے پھر ان کو شیطان نے بہکایا کہنے لگا کہ اے آدم! کیا میں تم کو ہمیشگی کی خاصیت کا درخت بتلاؤں اور ایسا کہ جس کی بادشاہی میں کبھی زوف نہ آئے تو اس کے بہکانے سے دونوں نے اس درخت سے کھا لیا تو دونوں کے سطر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنا بدن ڈھانپنے کو دونوں اپنے اوپر جنت کے درختوں کے پتے چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہو گیا سو غلطی میں پڑ گئے ناظرین گرامی اس عبرت اثر واقعے سے وابستہ مزید احوال ہم ائندہ پیش کریں گے
7/2/24
6/2/24
Shaitan ke 7 minar | The Seven towers of satan | Where are they located Urdu Hindi
شیطان کے سات مینار وہ مقام جو اس زمین پر شیطان اور اس کے لشکر کا ہیڈ کوارٹر ہیں ان میناروں کے ذریعہ پوری دنیا میں بدی کو کیسے عام کیا جاتا ہے عراق کی قدیم قومیں اس مینار کو مقدس کیوں سمجھتی ہیں اور ہٹلر کی نازی فوج ان میناروں کی تلاش کیوں کر رہے تھے دنیا کے مختلف
ابراہیمی اور غیر ابراہیمی مذاہب میں شیطان کا تفصیلی ذکر اور حالات مختلف ناموں کے ساتھ ملتا ہے کہ شیطان کس طرح بنی نوح انسان کو بہکاتا ہے اور اس کے کارندے اور چیلے کس طرح کام کیا کرتے ہیں اہل کتاب اور قدیم یونانی عقائد کے مطابق شیطان دنیا کے سات مقامات کو اپنے مراکز کے طور پر استعمال کرتا ہے یہ مقام دنیا کے مختلف ملکوں اور جزیروں میں پھیلے ہوئے ہیں اور شیطان جب سے اس زمین پر آیا ہے یہ مقامات شیطان کا ہیڈ کوارٹر ہیں انہی سات مقامات کو شیطان کا مینار یا سیون ٹاورز آف ڈیول کہا جاتا ہے لوگوں کے درمیان فساد پھیلانے اور پوری دنیا میں اپنی شر و فتنہ کو پھیلانے کے تمام تر منصوبہ بندی شیطان انہی سات میناروں میں انجام دیتا ہے اس عقائد کی تائید نہ صرف اہل کتاب اور قدیم مذاہب کرتے ہیں بلکہ مسلم صوفیا اور محققین بھی ان سات میناروں کو تسلیم کرتے ہیں دراصل شیطان کے ان سات میناروں کا تعلق اسمان سے دھتکارے گئے فرشتے یعنی دی فعولین انجلز سے ہیں چنانچہ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ فالن انجلز آخر کون تھے فالن انجلز یا باغی فرشتوں کا ذکر عبرانی یا بائبل میں تو موجود نہیں لیکن یہودیوں کی ایک قدیم آسمانی صحیفہ بک اف انوک میں ان باغی فرشتوں کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق انسانوں کی تخلیق سے بھی پہلے خدا نے فرشتوں کی تخلیق کی تھی جن میں لوسیفر نامی یک خوبصورت اور ذہین فرشتہ خدا کا سب سے مقرب بندہ تھا جو خدا کا سب سے زیادہ پیارا تھا لوسیفر تمام فرشتوں کا سردار تھا اور اس کے پاس بے پناہ علم تھے جلد ہی لوسیفر اپنے علم اور طاقت پر غرور و تکبر کر بیٹھا لہذا وہ خود کو خدا سے برتر کہنے لگا اور اپنے تخت کو خدا کے تخت سے بھی بلند کرنا چاہتا تھا وہ خود کی بڑائی چاہتا تھا لوسیفر نے دوسرے فرشتوں کو بھی خدا کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا لہذا کچھ فرشتوں نے لوسیفر کی بات مان لی اور اس کے ساتھ ہو گئے تو خداوند نے لوسیفر اور اس کے ساتھیوں کو آسمان کی بادشاہت سے نکال کر انہیں زمین پر گرا دیا اور اسی وجہ سے وہ گرائے ہوئے فرشتے کہلائے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں زمین پر انسانوں کا نگران یعنی واچرز بنا کر بھیجا گیا تھا لیکن وہ انسانی عورت کے فتنے میں مبتلا ہو گئے خیال رہے کہ اہل کتاب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ باغی مخلوق فرشتے تھے لیکن اسلامی عقائد اسے باطل قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتے کبھی سرکشی اور نافرمانی نہیں کرتے البتہ اگر اس واقعے کو حقیقی مان بھی لیا جائے تو وہ گرائے گئے مخلوق جنات یا ابلیس اور اس کے ساتھی کو قرار دیا جا سکتا ہے بہرحال بہت سارے قدیم عقائد یہ کہتے ہیں کہ فالن انجلز زمین پر ان سات مقامات پر گرائے گئے تھے اور یہ وہی سات مقامات ہیں جسے شیطان اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرتا ہے شیطان کے ان سات میناروں کے متعلق ایک فرانسیسی مسلمان محقق عبدالواحد یحییٰ نے کافی تحقیق کی تھی عبدالواحد یحییٰ اسلامک میٹا فزکس کے ماہرین میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف اسلام بلکہ تصوف اور دیگر ایشیائی مذاہب اور عقائد کے متعلق کئی کتابیں تحریر کیں جو جدید فلسفے اور میٹا فزکس کے ضمن میں لکھی گئی ہیں جن میں ایک مشہور رسالہ المرفہ ہے جسے 20 سے زیادہ یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا کہتے ہیں کہ عبدالواحدیحییٰ نے اپنی تمام زندگی شیطان کے اس سات میناروں کی تلاش اور تحقیق میں صرف کر دی عبدالواحد نے ان سات میناروں کے متعلق تفصیلی چیزیں لکھی ہیں اور ساتھ ان مقامات کی نشاندہی بھی کر دی ہے جہاں وہ میناریں موجود ہیں جن میں شیطان کا پہلا مینار عرب افریقی ملک سوڈان میں موجود ہے جہاں قدیم زمانے میں مصر کے فرونیوں کی حکومت تھی اور جو مصری جادوگروں کی سرزمین کے نام سے مشہور تھا دوسرا مینار افریقہ کی ہی ایک ملک نائیجر میں ہے جہاں کبھی قدیم انسانی قبائل آباد ہوا کرتے تھے شیطان کا تیسرا مینار ملک شام میں ہے جہاں قدیم فاؤنیشن لوگ آباد تھے اور جو کبھی قد آور دیو قامت انسانوں کا مسکن تھا عبدالواحد کے مطابق شیطان کا چوتھا مینار ترکستان میں جبکہ پانچواں اور چھٹا مینا روس کی برفیلی پہاڑی سلسلوں کی مزید شمال یعنی سائبریا کی ویران علاقوں میں کہیں موجود ہے شیطان کا ساتواں مینار دنیا کی قدیم ترین سرزمین میسو پوٹامیا یعنی عراق میں موجود ہے یہ ساتواں مینار ہی بقیہ تمام میناروں کو کنٹرول کرتا ہے اور تمام تر شیطانی منصوبے اس مینار کے اندر ہی شیطان کی ان سات میناروں کا تصور صرف یہود و نصاری کی صحیفوں میں ہی موجود نہیں بلکہ ایک قدیم مشرقی مذہب میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے جسے یزیدی مذہب کے نام سے جانا جاتا ہے یزیدی مذہب دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں ایک ہے جو ایران یعنی قدیم فارس میں زرتشت کی آمد سے پہلے سے موجود تھی یزیدی عقائد کے مطابق یزدان یعنی خداوند نے اس کائنات کو بنایا اور پھر سات بڑے فرشتوں کو پیدا کیا جو اس کے سب سے زیادہ فرمانبردار تھے جن کا نام دردائیل، جبرائیل، عزرائیل میکائیل ،ازازیل، اسرافیل اور ملک طاؤس ہے ان میں سب سے مقرب فرشتہ ملک طاؤس تھا جسے بہت سارے علم اور طاقت عطا کی گئی تھی لیکن جب ملک طاؤس نے ادم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو یزدان نے طاؤس کو جہنم میں ڈال دیا طاؤس اپنے کیے پر شرمندہ ہوا اور اتنا رویا کہ انسوؤں سے جہنم کی آگ بجھ گئی لہذا خداوند نے اسے معاف کر دیا یہ طاؤس کوئی اور نہیں بلکہ ابلیس لعین تھااور یزیدی اسی شیطان کی پوجا کرتے ہیں جس کی شبی وہ کسی مور یا سانپ کی شکل میں پیش کرتے ہیں یزیدیوں کابھی ماننا ہے کہ ملک طا ؤس یا شیطان اپنی حکومت دنیا میں موجود سات مختلف مقامات سے چلاتا ہے اور وہ ان میناروں کو مقدس مانتے ہیں انہوں نے عراق کے شمالی حصوں میں ان سات میناروں کی فرضی عمارتیں بھی بنا رکھی ہیں جس کی زیارت ہر یزیدی پر فرض ہے ہر زمانے میں مختلف سلطنتوں اور حکومتوں نے اس جگہ سے یزیدیوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی لیکن وہ سب ناکام رہے اور ہزاروں سالوں سے یزیدی قوم اسی جگہ آباد ہے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یزیدی جس مقام پر آباد ہے یہ جگہ ملک طاؤس کی سرزمین ہے جہاں اس کا ساتواں مینار قائم ہے جس کی حفاظت یہ یزیدی کرتے ہیں سال 2006 میں جب امریکی فوج عراق پر قابض ہوئی تھی تو امریکی فوج کے سپاہیوں نے بتایا تھا کہ کرتستان اور عراق کے یزیدی علاقوں میں انہوں نے ایک عجیب و غریب مخلوق کو کئی مرتبہ دیکھا تھا جب انہوں نے اس مخلوق کی تلاش کی تو انہیں اس مقام پر نہ کوئی ثبوت ملے نہ قدموں کے نشانات جہاں انہوں نے اسے دیکھا تھا فوج کے سپاہیوں کے ساتھ ایسے کئی واقعات ہوئے کہ جب انہوں نے انسان نما لمبے قد کی مخلوق کو دیکھا لیکن جب وہ ان کے قریب گئے تو وہ ہوا میں بکھر کر غائب ہو گیا مقامی مسلمان اسے زول جن کہا کرتے تھے جبکہ یزیدیوں کا ماننا تھا کہ وہ ملک طاؤس ہے جو اس علاقے میں رہتا ہے اور وقتا فوقتا نظر آ جاتا ہے۔ عبدالواحد نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سات مقامات ایک دوسرے سے کسی خاص منفی قوت کے تحت جڑے ہوئے ہے یہ شیطانی قوت زمین میں موجود مگنیٹک فیلڈ جیسا ہے کچھ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ سات مینار جس مقام پر موجود ہیں وہاں سے دراصل دوسری دنیا کے دروازے کھلتے ہیں جنہیں جدید سائنس پورٹلز کا نام دیتی ہے ان پورٹل سے خلائی مخلوق جنات اور شیطان اس دنیا میں آتے ہیں جنہیں وہاں کے مقامی باشندوں نے دیکھنے کے کئی واقعات بیان کیے ہیں مغربی محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سال 1940 میں جب ہٹلر کی نازی افواج پوری دنیا میں تباہی پھیلا رہی تھی تو نازی سائنسدانوں اور ماہرین نے ان سات میناروں کو تلاش کرنے پر بہت کوششیں کی اور اس مینار کو کھوج نکالنے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے مگر 1945 میں سیکنڈ ورلڈ وار کے نتیجے میں نازی تباہ و ہلاک ہو گئے لیکن اج بھی بہت ساری تنظیمیں ان سات میناروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو اس دنیا میں برائی کا سب سے بڑا منبع ہے اور جہاں تک پہنچ کر نہ جانے کن کن طاقتوں اور شیطانی قوتوں سے جڑا جا سکتا ہے
4/2/24
شیطان کی چھ کمزوریاں
ایک : جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو سلام کرتے ہیں ۔
دو : ایک دوسرے سے مصحافہ کرتے ہیں ۔
تین : ہر کام کا ارادہ کرنے سے قبل انشااللہ کہتے ہیں.
چار: گناہ ہو جائے تواستغفار کرتے ہیں ۔
پانچ : آپؐ کا نام سنتے ہیں صلوات پڑھتے ہیں ۔
چھ : ہر کام کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تلاوت کرتے ہیں
Ba Adab Ba Naseeb
ایک بار جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ کسی نخلستان میں تشریف رکھتے تھے
– ایک تاجر کا وھاں سے گذر ھوا — وہ آپ کے پاس آیا اور سلام کر کے مودب سامنے بیٹھ گیا اور انتہائی ادب سے گذارش کی.. ” حضور ! تجارت کی کونسی ایسی جنس خریدوں جس میں بہت نفع ھو.. ” جناب بہلول نےفرمایا.. ” کالا کپڑا لے لو.. ” تاجر نے شکریہ ادا کیا اور الٹے قدموں چلتا واپس چلاگیا.. جا کر اس نے علاقے میں دستیاب تمام سیاہ کپڑا خرید لیا.. کچھ دنوں بعد شہر کا بہت بڑا آدمی انتقال کر گیا.. ماتمی لباس کے لئے سارا شہر سیاہ کپڑے کی تلاش میں نکل کھڑا ھوا.. اب کپڑا سارا اس تاجر کے پاس ذخیرہ تھا.. اس نے مونہہ مانگے داموں فروخت کیا اور اتنا نفع کمایا جتنا ساری زندگی نہ کمایا تھا اور بہت ھی امیر کبیر ھو گیا.. کچھ عرصے بعد وہ گھوڑے پر سوار کہیں سے گذرا.. جناب بہلول وھاں تشریف رکھتے تھے.. وہ وہیں گھوڑے پر بیٹھے بولا.. ” او دیوانے ! اب کی بار کیا لوں.. ؟” ہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ نے فرمایا.. ” تربوز لے لو.. ” وہ بھاگا بھاگا گیا اور ساری دولت سے پورے ملک سے تربوز خرید لئے.. ایک ہی ہفتے میں سب خراب ہو گئے اور وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا.. اسی خستہ حالی میں گھومتے پھرتے اس کی ملاقات جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ سے ھوگئی تو اس نے کہا.. ” یہ آپ نے میرے ساتھ کیا کِیا..? ” جناب بہلول دانا رحمتہ اللّه علیہ نے فرمایا.. ” میں نے نہیں ‘ تیرے لہجوں اور الفاظ نے سب کیا.. جب تونے ادب سے پوچھا تو مالا مال ہوگیا.. اور جب گستاخی کی تو کنگال ہو گیا.. “ اس کو کہتے ہیں… باادب با نصیب.. بے ادب بے نصیب…..
3/2/24
quran ka mojza by qari abdul basit sahib
﷽
2/2/24
بورسہ قبیلے کے سردار کی بیٹی حاملہ ہوگئی سلطان نے حکیم کو حکم دیا کہ اس لڑکی کو معائنہ کرو حکیم نے
﷽
السلام علیکم
مصر کا مشہور شہر قاہرہ تھا. بہار کا موسم تھا. ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا ، ایک لڑکی گھوڑے پر سوار تھی . اور زور زور سے چیخ رہی تھی. اور کچھ فریاد کر رہی تھی اور اس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین اپنی سواریوں پر موجود تھے ان کی نیام میں تلواریں باہر نکل چکی تھیں اور تمام لوگ تلواریں لہراتے ہوئے اس لڑکی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں آرہے تھے یہ واقعہ بہت دلچسپ ہے.
اس وجہ سے تاریخ کے بہت سے مورخین اس کو نقل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور اس واقعہ کو ایک یورپی مورخ لین پال نے اپنی مشہور کتاب صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی بہادری میں بیان کیا تھا۔ سلطان کے محل کے دروازے پر موجود سنگتری بھی حیران و پریشان ہو گئے کہ آخر اتنا بڑا قافلہ اور ان کے درمیان میں ایک اکیلی لڑکی اور وہ بھی اتنی خوبصورت اور حسین و جمیل جس کی آنکھیں ہرنی جیسی تھیں . قدرت کا کوئی خاص کرشمہ لگتی تھی۔ سپاہی پریشان ہو گئے کہ آخر مسئلہ کیا ہے ? سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو اس بات کی خبر دی گئی بعد میں سلطان کے چند عام سپاہی اس لشکر کی طرف روانہ ہو گئے اور جاکر معلوم کیا تا کہ پتہ چل سکے کہ آخر یہ اتنا بڑا قافلہ ہزاروں کی تعداد میں کیا کرنے کے لیے آرہا ہے چاندی لمحوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو خبر دی گئی کہ حضور آپ کی عدالت میں اپنی نوعیت کا ایک انو کھا اور منفر د مقدمہ لایا جارہا ہے اس مقدمے کو بڑے بڑے قاضی بڑے بڑے امیر وزیر نہیں حل کر سکے یہ مقدمہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی کا مقدمہ ہے جو آپ کے پاس لایا جارہا ہے یہ بات سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے سنی تو وہ بھی بڑا پریشان ہو گیا اور سوچنے لگے کہ آخر ایک مقدمے کی خاطر اتنا بڑا قافلہ کیوں آرہا ہے جب سلطان نے محل کے اوپر چڑھ کر دیکھا تو قافلے کی تعداد ہزاروں میں تھی، بہار کا موسم تھا. لہذا اسلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسی وقت تمام محل کے نوکروں کو بلا کر حکم دو کہ محل کے باہر کھلے میدان میں عدالت لگانے کے لیے بندوبست کیا جائے. قافلے کے پہنچنے سے پہلے ہی چند ہی گھنٹوں میں عدالت لگ گئی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنے کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ پریشان تھے لیکن پریشانی یہ نہیں تھی کہ آخر اتنا بڑا قافلہ کیوں آرہا ہے ؟ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ایک آخر اتنابڑا قافلہ کیوں آرہا ہے ؟ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ ایک لڑکی کا تمام لوگ اس طرح محاصرہ کر کے کیوں لے کر آرہے تھے یہ بات سلطان کے لیے پریشانی کی وجہ تھی . سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ ابھی کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ سلطان کو سپاہی نے آکر خبر دی. حضور تمام لوگ عدالت میں پہنچ چکے ہیں. اور سردار کی بیٹی کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے لہذا لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب سلطان کے وزیروں نے خبر سنی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے محل کے باہر کھلی عدالت لگانے کا فیصلہ کیا تو تمام وزیر اور مشیر حتی کے سلطان کے تمام کمانڈر بھی آپ کے احترام میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں پہلے پہنچ چکے تھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کھلے میدان میں پہنچے تو سلطان کے لیے ایک خاص نشست بنائی گئی تھی سلطان اس پر تشریف فرما ہوئے سلطان نے ہر طرف نظر دوڑائی تو ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے ایک طرف عور تیں تھیں تو دوسری طرف مرد تھے تمام مردو خواتین کے ہاتھوں میں تلواریں اور وہ بھی نیام سے نکلی ہوئی تھیں ایک بزرگ بوڑھا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی لیکن اسی تلوار کے سہارے وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا اور ایک نوجوان لڑکی کٹہرے میں کھڑی رور ہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ بڑا پریشان ہوا کہ آخر ایسا کون سا مقدمہ ہے جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ میری عدالت میں حاضر ہوئے ہیں اس وقت کے مورخین لکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اتنی تعداد میں کبھی بھی کسی عدالت میں اتنے لوگ جمع نہیں ہوئے جتنا اس دن سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں اس لڑکی کے مقدمے کے لیے حاضر ہوئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس بزرگ بوڑھے سردار سے پوچھا بابا جی بتاؤ آخر بات کیا ہے آخر اتنا بڑا قافلہ اس عدالت میں کیوں حاضر ہوا اور آخر اس لڑکی نے کون سا اتنا بڑا جرم کیا اتنے میں قبیلے کا سر دار جو کہ تلوار کے سہارے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا بڑی مشکل سے دو آدمیوں کے سہارے سے اپنی ٹانگوں پر کھڑ ا ہوا اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے رورو کر بتانے لگا سلطان معظم میں بورسیہ قبیلہ کا سر دار ہوں ہمارا قبیلہ ہزاروں خیموں پر مشتمل ہے اور تمام قبیلے کے لوگ جانتے ہیں کہ میں کس کر دار کا مالک ہوں. لہذا میں اپنے منہ سے اپنا تعارف نہیں کر اسکتا. اور دوسری بات کہ میری دو شادیوں کے باوجود اللہ تعالی نے مجھے صرف ایک بیٹی سے نوازا . میں نے پھر بھی اللہ تعالی کا ہر وقت شکر ادا کیا. اور اپنی بیٹی کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا تھا میں نے اپنی بیٹی کی وہ تربیت کر رکھی تھی کہ میری بیٹی کسی بیٹے سے کم بھی نہیں تھی اور میری بیٹی کسی سلطان کی بیٹی سے بھی کم نہیں تھی میری بیٹی ایک اچھی جنگجو ایک حاضر دماغ اور باکردار لڑکی تھی اور میں اپنی بیٹی پر بہت فخر کرتا تھا. سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اس بوڑھے بزرگ کی طرف متوجہ تھے . وہ بوڑھا بزرگ کہہ رہا تھا سلطان معظم میری بیٹی کے خوف کی وجہ سے پورے قبیلے میں کسی مرد میں ہمت نہیں تھی کہ وہ قبیلے کی کسی نامحرم عورت کی طرف غلط نظر اٹھا کر دیکھے لیکن شرمندگی کی بات اس وقت ہوئی اور اس وقت میری کمر ٹوٹی کہ جس لڑکی کے ڈر سے قبیلے کے مرد دوسری لڑکیوں کو بری نظر سے نہیں دیکھتے تھے وہ لڑکی آج بغیر شادی شدہ حاملہ ہو گئی تھی جب یہ بات بزرگ نے کہی تو اس لڑکی کی آنکھوں سے خون جیسے آنسو آنے لگے اس وقت عدالت میں اس طرح سناٹا چھایا جیسے بادل گرجنے کے بعد آسمان پر سناٹا ہو جاتا ہے قافلے میں موجود اکثر لوگوں کے چہرے پر اداسی نمایاں تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سارے معاملے کو باغور سن رہے تھے. پھر وہ بزرگ کہنے لگا سلطان معظم جب اس بات کی خبر مجھے لگی کہ میری بیٹی بغیر شادی شدہ ہونے کے بھی حاملہ ہو چکی ہے اور اس کے پیٹ میں ایک نا جائز بچہ پر وریش پا رہا ہے اور وہی بچہ کل کو قبیلے کا سردار بنے گالہذا جب مجھے یہ بات پتہ چلی تو میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اس بچے کے اس دنیا سے آنے سے پہلے ہی میں اپنی بیٹی کا گلا کاٹ دوں گا. لہذا میں نے اپنے جرگے میں فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی کو میں تمام قبیلے والوں کے سامنے ہی اس کا سر قلم کر دوں گا تا کہ مجھے ساری زندگی یہ ذلت نہ اٹھانی پڑے اور جب پھر میری بیٹی کی سزا کا وقت ہو ا تو اس وقت ہمارے قبیلے کے ایک چھوٹے سردار نے مجھے مشورہ دیا کہ حضور بے شک آپ کے پاس اختیار ہے آپ اس بات کی طاقت بھی رکھتے ہیں کہ کہ ہر چھوٹے بڑے بزرگ مردوخواتین پر آپ کا اختیار ہے اور آپ جس کو چاہیں جو بھی سزا دینا چاہیں دے سکتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم ایک ایسے سلطان کی سرزمین پر رہتے ہیں جس کا مقصد ساری زندگی اس دھرتی پر انصاف کا قائم کرنا ہے اور انصاف بھی ویسا جو کہ عین اسلامی اصولوں ہم نے بغیر مجرم کو تلاش کیے اور بغیر اس معاملے کی تحقیق کیسے آپ نے اپنی بیٹی کو سزا دے دی تو اس طرح نہ ظلم روکے گا اور نہ ہی انصاف قائم ہو گا۔ حتی کہ لوگوں کے دلوں میں مزید خوف اور نفرت پید ا ہو جائے گی. لہذا ہمیں اس مقدمے کو لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی عدالت میں جانا چاہیے. سلطان سلطان معظم جو بھی فیصلہ کریں گے وہ تمام قبیلے والوں کو منظور ہو گا اور اس لیے میں بیٹی کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں اور تمام قبیلے والوں کے ساتھ سوائے چند خواتین کے جن کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ان کو لے کر آپ کی عدالت میں حاضر ہو گیا ہوں اور میں چاہتاہوں کہ اس مقدمے کا فیصلہ تمام لوگوں کے سامنے ہو تا کہ یہ لوگ اس مقدمے کے فیصلے سے عبرت حاصل کر سکیں اور یہ بات تاریخ میں لکھی جائے گی کہ ہزاروں خیموں پر مشتمل قبیلے کے سردار نے اپنی اکلوتی بیٹی کو کسی نامحرم کے ساتھ زنا کرنے پر اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا کاٹا تھا. لہذا اس فیصلے کے بعد کسی میں ایسا کام کرنے کے بارے میں کبھی کسی کی جرات نہ ہو گی . سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ یہ سب سننے کے بعد بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ آخر ایک لڑکی اتنے بڑے قبیلے کے سردار کی بیٹی ہونے کے بعد اتنی بہادر سپاہی ہونے کے بعد بھی آخر اتنا بڑا اقدم کیسے اٹھا سکتی ہے آخر اس لڑکی سے اتنا بڑا گناہ کیسے سرزد ہوا اور سب سے بڑی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ لڑکی یعنی کہ میری بیٹی اپنا گناہ ماننے سے انکار کر رہی ہے اور خدا کی قسم اٹھا کر کہتی ہے کہ مجھے اگر روزہ رسول پر بھی لے جایا جائے تو میں وہاں پر بھی یہی کہوں گی کہ میں نے کبھی کسی لڑکے کے ساتھ کسی مرد کے ساتھ کوئی بدکاری نہیں کی سارے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ شاہی حکیم کو حاضر کرو اور اس کو کہو کہ اپنے ساتھ ایک خاتون حکیم بھی لے کر آؤ. سلطان کے حکم پر شاہی حکیم ایک خاتون حکیم کو لے کر سلطان کے پاس حاضر ہوا. سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے خاتون حکیم کو اپنے پاس بلایا اور کہا سر دار کی بیٹی کو ایک کمرے میں لے جاؤ اور جاکر معائنہ کرو اور اس کے بعد مجھے آکر خبر دو خاتون حکیم نے بزرگ کی بیٹی کو اپنے ساتھ لیا اور ساتھ والے کمرے میں چلی گئی آدھے گھنٹے کے بعد جب وہ کمرے کے باہر نکلی تو آکر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو خبر دی جس خبر نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے رونگٹے کھڑے کر دیے اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو کہا کہ سلطان معظم دیے گئے تجربے اورمیری اپنی عقل مندی سے مجھے یہی پتہ چلا کہ یہ لڑکی حاملہ ہے اس کے رحم میں ایک بچہ پرورش پارہا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ لڑکی ابھی تک پاک دامن ہے اور اس کا پر دہ بقارت زائل نہیں ہوا اور اس بات کی سمجھ مجھے نہیں آرہی کہ جسے لڑکی کا پر دہ بقارت زائل نہ ہو وہ حاملہ کیسے ہو سکتی ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ساری باتیں سنی تو بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا عجیب صور تحال ہو چکی ہے لہذا پریشانی کے عالم میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ سوچنے لگا اور اتنی گہری سوچ میں پڑ گیا کہ تمام لوگ آپ کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ تمام درباریوں سے مخاطب ہوا اور کہا میں دو نفل نماز ادا کرنے کے بعد ہی اس مقدمے کا فیصلہ کروں گا تمام لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کا ان تظار کرنے لگے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے دو نفل نماز ادا کی اور اس کے بعد مصلے پر دعامانگنے لگے اور فرمایا اے میرے مالک تو نے مجھے کس امتحان میں ڈال دیا مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ قبیلے کے سردار کی بیٹی پاک دامن اور باکردار ہونے کے بعد بھی حاملہ کیسے ہو سکتی ہے اے میرے مالک میری رہنمائی فرما۔ اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ دعا مانگ کر واپس عدالت میں تشریف لے آئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اپنی نشست پر پریشانی کی حالت میں تشریف فرما تھے کیونکہ یہ مسئلہ بہت بڑا تھا. ایک عورت کے پیٹ میں ایک بچہ پرورش پار ہا تھا۔ لیکن اس عورت کاکردار بالکل پاک صاف تھا۔ اس عورت کو کسی نے چھوا تک نہیں. یہ بات سلطان حتی کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے دماغ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور کا ایک واقعہ یاد آیا اور اس واقعے کی مماثلت اس لڑکی کے واقعے سے بہت زیادہ تھی لہذ ا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ ابھی اور اسی وقت بڑا سا ایک برف کا ٹکڑالے کر حاضر کیا جائے سلطان کا حکم تھا سلطان کے سپاہی گئے اور بڑاسا برف کا ٹکڑالے کر آگئے اب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی دو کنیزوں کو برف کا ٹکڑا دیتے ہوئے کہا کہ اس لڑکی کو ایک کمرے میں لے جاؤ اور اس برف کے ٹکڑے کے اوپر بیٹھا دو اور چند لمحے انتظار کرو اس کے بعد آکر مجھے خبر دو تمام لوگ بڑے حیران وپریشان تھے کہ آخر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کیا کرنے والے ہیں دونوں کنیزیں اس لڑکی کو لے کر اندر پریشان تھے کہ آخر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کیا کرنے والے ہیں دونوں کنیزیں اس لڑکی کو لے کر اندر چلی گئیں۔ چند لمحوں کے بعد دونوں کنیزیں باہر آئیں۔ تو انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو کچھ بتایا۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے حکیم خاتون کو کہا کہ دوبارہ اس لڑکی کو کمرے میں لے جاؤ اور جا کر اس کا معائنہ کرو. جب وہ لڑکی دوبارہ کمرے کے اندر گئی تو تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ واپس باہر آئی اور خاتون حکیم نے آکر سلطان کو بتایا اور جو حقیقت اس نے سلطان کو بتائی یہ سن کر تمام لوگوں کے دل و دماغ سن ہو گئے اور وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ آخر ہو کیا رہا ہے اس حکیم خاتون نے بتا یا سلطان معظم یہ لڑکی جو آپ کے سامنے کھڑی ہے ابھی بھی اس کا دامن پہلے کی طرح پاک ہے اور اب اس کے پیٹ سے بچہ غائب ہو چکا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیٹ میں اب کوئی بھی بچہ پرورش نہیں پار ہا اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ مسکرانے لگے اور ان دونوں کنیزوں کو اپنے سامنے بلایا اور کہا ساری حقیقت ان درباریوں کے سامنے بیان کروں. تو انہوں نے کہا سلطان معظم جب ہمیں برف کا ٹکڑادیا تو ہم نے اس برف کے ٹکڑے کے اوپر اس لڑکی کو بٹھا دیا جب تھوڑی دیر گزری تو اس برف کے ٹکڑے کی ٹھنڈ کی وجہ سے اس لڑکی کے پیٹ میں ایک کیڑا پر ورش پار ہا تھاوہ ٹھنڈ کی وجہ سے باہر آگیا۔ اور وہی کیڑا ہی اس لڑکی کے پیٹ میں پرورش پارہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس لڑکی کا پیٹ پھول گیا تھا اور حکیم خاتون نے کی وجہ سے اس لڑکی کا پیٹ پھول گیا تھا اور حکیم خاتون نے سمجھا کہ یہ حاملہ ہو چکی ہے یہ سن کر اس بزرگ کی جان میں جان آگئی اور ایسالگ رہا تھا کہ وہ بزرگ سترہ سالہ نوجوان بن گیا تھا پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام درباریوں کے سامنے حکم دیا کہ یہ لڑکی بالکل پاک دامن اور پاک باز ہے. پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس بزرگ آدمی سے پوچھا۔ کبھی تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا کہ یہ پانی میں ڈوبتے ڈوبتے بچی ہو تو اس نے کہا جی ہاں سلطان معظم ایک دن میں اپنی بیٹی کے ساتھ دوسرے قبیلے جارہا تھا راستے میں ہم پر دشمنوں نے حملہ کر دیا گھوڑے آگ کے شعلوں کی وجہ سے ادھر ادھر دوڑنے لگے اور اسی کشمکش میں گھوڑے سے دوڑتے ہوئے میری بیٹی پانی میں گر گئی اور اس کا سر پتھر پر لگا جس کی وجہ سے میری بیٹی بے ہوش ہو گئی خوش قسمتی سے اس کا سر باہر تھا لیکن اس کا سارا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا آدھا دن تلاش کرنے کے بعد بیٹی کو وہاں سے جا کر تلاش کر لیا اور اللہ کی مدد سے میری بیٹی با حفاظت اپنے قبیلے پہنچ گئی یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ واقعہ کتنا پرانا ہے تو قبیلے کے سردار نے کہا اس واقعے کو تقریبا ایک ماہ گزر چکا ہے تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام درباریوں کے سامنے کہا کہ یہ خاص قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو کہ اکثر جانوروں اور انسان کے پیٹ میں پلتا ہے اور جب تیری بیٹی پانی میں گری تو اسی کیچڑ میں یہ کیڑا موجود تھا اور بے ہوشی کی حالت کی وجہ سے اسے پتہ ہی نہ چلا اور وہ کیڑا جو ابھی چھوٹا تھا اس کے رحم سے اس کے پیٹ میں داخل ہو گیا اور اس کے پیٹ میں پرورش پاتا رہا جب یہ کیڑا اپنے جسم میں بڑھا تو اسے پتہ چل گیا اور لوگوں کو لگا کہ یہ حاملہ ہو چکی ہے۔ حالانکہ اس کو آج تک کسی نامحرم نے چھوا تک نہیں. جب یہ بات سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے کہی تو تمام لوگ حیران و پریشان ہو گئے اور پھر تمام لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کو دعائیں دینے لگے
Best Powerful Motivational qoutes about Life urdu hindi | Inspirational Life Changing Quotes
محبت کی پہلی شرط عزت ہے جو عزت نہیں دے سکتا وہ سچا پیار بھی نہیں دے سکتا ۔آنسو کا ہر قطرہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے لیکن کوئی اس کی قیمت اس وقت تک نہیں جان پاتا جب تک وہ اس کی اپنی آنکھ سے نہ نکلے۔
ہمیشہ اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کیا کرو کیونکہ انسان کبھی بھی پہاڑوں سے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ٹھوکر کھا کر گرتا ہے ۔کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی اپنا ہمیں بھول جائے تو کیا کریں جواب آیا کہ اگر کوئی اپنا ہو تو کبھی نہیں بھولتا اور جو بھول جائے وہ کبھی اپنا نہیں ہوتا۔ ملتا تو بہت ہے زندگی میں پر ہم گنتی اسی کی کرتے ہیں جو حاصل نہ ہو سکا ۔سپنے اگر تمہارے ہیں تو انہیں پورا بھی تم ہی کو کرنا ہوگا نہ ہی حالات کبھی تمہارے حساب سے ہوں گے اور نہ ہی لوگ۔ بولنے سے پہلے لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں لیکن بولنے کے بعد انسان اپنے لفظوں کا غلام بن جاتا ہے ۔ہمیشہ یاد رکھنا آپ میں برائی تب پیدا ہوگی جب آپ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگیں گے جب لفظ خاموش ہو جاتے ہیں تو آنکھیں بات کرتی ہیں پر بڑا مشکل ہوتا ہے ان سوالوں کا جواب دینا جب آنکھیں سوال کرتی ہیں۔ دشمن بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی سے لڑا جائے آپ تھوڑے کامیاب ہو جائیں دشمن خیرات میں ملیں گے۔ بھروسہ ایک ربڑ کی طرح ہوتا ہے ہر غلطی کے بعد اور چھوٹا اور چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ کسی درخت پر اگر اوقات سے زیادہ پھل لگ جائے تو اس کی ڈالیاں ٹوٹنے لگ جاتی ہیں بالکل اسی طرح انسان کو اگر اوقات سے زیادہ مل جائے تو وہ رشتوں کو توڑنے لگتا ہے۔
پیسہ زندگی کی کمزوریوں میں سے ایک ہے ایک بار مٹھی میں بند کر لیا جائے تو چھوڑنے کو جی نہیں کرتا۔ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کچھ لوگ عزت اور کامیابی ملنے پر مزید جھک جاتے ہیں اور کچھ لوگ دوسروں کو جھکانے میں لگ جاتے ہیں۔ صبر کبھی نہ مانگو کیونکہ صبر کسی چیز کو کھو دینے کے بعد حاصل ہوتا ہے ہمیشہ سکون مانگو کیونکہ سکون حاصل کرنے کے لیے کسی چیز کو کھونا نہیں پڑتا۔ بھروسہ اور پیار بہت مہنگے تحفے ہیں اس لیے سستے لوگوں سے کبھی ان کی امید نہ کرنا۔ مذاق اور پیسہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر اڑایا کرو بلاوجہ کسی کا دل نہ دکھایا کرو۔ رشتوں کو اگر مضبوط کرنا چاہتے ہو تو دوسروں کی غلطیوں کو بھول جایا کرو۔ چھوٹی سی غلط فہمی میں اتنا زہر بھرا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے سالوں پرانے رشتوں کو مارنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ زندگی کو جیو اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو۔ چلتے وقت کو بدلنے کی کوشش نہ کرو دل کھول کر سانس لو۔ اندر ہی اندر گھٹنے کی کوشش نہ کرو کچھ باتیں خدا پر بھی چھوڑ دو سب کچھ خود سلجھانے کی کوشش نہ کرو ۔پا لینے کی بے چینی اور کھو دینے کا ڈر بس اتنا سا ہی تو ہے یہ زندگی کا سفر۔ اور زندگی میں ہر روز کچھ نیا سیکھو نیا سوچو نیا کرو لرن کرو
﷽
السلام علیکم
یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو "انکل ابراہیم" کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ، آئسکریم اور گولیاں، ٹافیاں دستیاب تھیں۔ اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک سات سالہ بچہ (جاد) تھا۔ جاد تقریباً روزانہ ہی انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد نے کبھی بھی ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولی تھی۔ ایک بار جاد دکان سے جاتے ہوئے چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا۔ انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا، "جاد! آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا؟" انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد آج تک یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا۔ جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا کہ، "وہ اگر اسے معاف کر دے تو آئندہ وہ کبھی بھی چوری نہیں کرے گا۔" مگر انکل ابراہیم نے جاد سے کہا: "اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا، ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا۔" اور بالآخر اسی بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا۔ وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی۔ بلکہ ایسا ہو گیا کہ انکل ابراہیم ہی جاد کیلئے باپ، ماں اور دوست کا درجہ اختیار کر چکا تھا۔ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا، ایسے میں انکل میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتا اور جاد سے کہتا کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے دو صفحے پڑھتا، جاد کو مسئلے کا حل بتاتا، جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر کو چلا جاتا۔ اور اسی طرح ایک کے بعد ایک کرتے سترہ سال گزر گئے۔ سترہ سال کے بعد جب جاد چوبیس سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابرہیم بھی اس حساب سے سڑسٹھ سال کا ہوچکا تھا۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گیا۔ اُس نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی، اُس کی وصیت تھی کہ "اس کے مرنے کے بعد یہ صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے۔۔۔۔!" جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا، کیونکہ انکل ہی تو اسکا غمگسار اور مونس تھا۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا۔ جاد، انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ مگر ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا، "آج انکل ہوتا تو وہ اُسے کتاب کھول کر دو صفحے پڑھتا اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا" جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسوؤں نکل آئے۔ "کیوں ناں آج میں خود کوشش کروں۔۔!" کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا، لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا، "مجھے اس میں سے دو صفحے پڑھ کر سناؤ"، مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا، "یہ کیسی کتاب ہے؟" تیونسی نے کہا، "یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے۔۔!" جاد نے پوچھا، "مسلمان کیسے بنتے ہیں؟" تیونسی نے کہا، "کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں۔" جاد نے کہا، "تو پھر سن لو میں کہہ رہا ہوں اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہٗ لَاشَرِيْكَ لَہٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُہٗ۔" جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے "جاد اللہ القرآنی" کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی، دین کو سمجھا اور اور اس کی تبلیغ شروع کی۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر چھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط کیئے ہوئے تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:"اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔۔۔!!" جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اس کیلئے وصیت ہو۔ اور اسی وقت جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی۔ جاد اللہ نے یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا، سوڈان، یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا، دعوت حق کیلئے ہر مشکل اور پرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے تیس سال گزار دیئے۔ سن 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گِھر کر محض 54 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملے۔جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک دو سال بعد اس کی ماں نے ستر سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتے تھے کہ انکل ابراہیم نے اس کے سترہ سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو۔ مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کیئے بغیر چارہ نہ تھا۔ میرے دوستو! آخر میں صرف اتنا ہی کہونگی کہ جتنا ہو سکے ہم اپنے اچھے کردار کو اُجاگر کریں۔ کیونکہ ہماری زبان سے نکلی ہوئی بات سے ہو سکتا ہے کوئی انکار کر دے لیکن جس بات کو ہم اپنے کردار سے اور دل کی گہرائیوں سے استوار کریں گے اُسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔